عالمِ برزخ
عالمِ برزخ
مردہ اپنی قبر سے
کيا شے ہے، کس امروز کا فردا ہے قيامت
اے ميرے شبستاں کہن! کيا ہے قيامت؟
اے ميرے شبستاں کہن! کيا ہے قيامت؟
قبر
اے مردئہ صد سالہ! تجھے کيا نہيں معلوم؟
ہر موت کا پوشيدہ تقاضا ہے قيامت!
ہر موت کا پوشيدہ تقاضا ہے قيامت!
مردہ
جس موت کا پوشيدہ تقاضا ہے قيامت
اس موت کے پھندے ميں گرفتار نہيں ميں
ہر چند کہ ہوں مردئہ صد سالہ وليکن
ظلمت کدہ خاک سے بيزار نہيں ميں
ہو روح پھر اک بار سوار بدن زار
ايسی ہے قيامت تو خريدار نہيں ميں
اس موت کے پھندے ميں گرفتار نہيں ميں
ہر چند کہ ہوں مردئہ صد سالہ وليکن
ظلمت کدہ خاک سے بيزار نہيں ميں
ہو روح پھر اک بار سوار بدن زار
ايسی ہے قيامت تو خريدار نہيں ميں
صدائے غيب
نے نصيب مار و کژدم، نے نصيب دام و دد
ہے فقط محکوم قوموں کے ليے مرگ ابد
بانگ اسرافيل ان کو زندہ کر سکتی نہيں
روح سے تھا زندگی ميں بھی تہيی جن کا جسد
مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد
ہے فقط محکوم قوموں کے ليے مرگ ابد
بانگ اسرافيل ان کو زندہ کر سکتی نہيں
روح سے تھا زندگی ميں بھی تہيی جن کا جسد
مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد
قبر
( اپنے مردہ سے(
آہ ، ظالم! تو جہاں ميں بندہ محکوم تھا
ميں نہ سمجھی تھی کہ ہے کيوں خاک ميری سوز
ميں نہ سمجھی تھی کہ ہے کيوں خاک ميری سوز
ناک
تيری ميت سے مری تاريکياں تاريک تر
تيری ميت سے زميں کا پردئہ ناموس چاک
الحذر، محکوم کی ميت سے سو بار الحذر
اے سرافيل! اے خدائے کائنات! اے جان پاک!
تيری ميت سے زميں کا پردئہ ناموس چاک
الحذر، محکوم کی ميت سے سو بار الحذر
اے سرافيل! اے خدائے کائنات! اے جان پاک!
صدائے غيب
گرچہ برہم ہے قيامت سے نظام ہست و بود
ہيں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود
زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہيں مانند سحاب
زلزلے سے واديوں ميں تازہ چشموں کي نمود
ہر نئی تعمير کو لازم ہے تخريب تمام
ہے اسی ميں مشکلات زندگانی کی کشود
ہيں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود
زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہيں مانند سحاب
زلزلے سے واديوں ميں تازہ چشموں کي نمود
ہر نئی تعمير کو لازم ہے تخريب تمام
ہے اسی ميں مشکلات زندگانی کی کشود
زمين