وہی جہاں ہے تراجس کو تو کریں پیدا

نہ فلسفی سے ، نہ مُلّا سے ہے غرض مجھ کو

کيے ہيں فاش رموزِ قلندری ميں نے

عقل عيار ہے ، سو بھيس بنا ليتي ہے

حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک ميں ہے

فطرت کو خرد کے روبرو کر

مُلّائے حرم

يہی دين محکم ، يہی فتح باب

سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے

زمانے میں جھوٹا ہے اُس کا نگیں

محبت  مجھے ان جوانوں سے ہے

مرا طريق اميری نہيں ، فقيری ہے